ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / خلیجی خبریں / بھوپال واقعہ مدھیہ پردیش حکومت کی فرضی داستان

بھوپال واقعہ مدھیہ پردیش حکومت کی فرضی داستان

Sun, 06 Nov 2016 19:07:11  SO Admin   S.O. News Service

ریاست کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس شدید: مولانا اسرارالحق قاسمی 
بھوپال، 6 ؍نومبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا )ممبر پارلیمنٹ اور معروف ملی و قومی رہنما مولانا اسرارالحق قاسمی نے سیمی سے وابستہ آٹھ زیرِ سماعت قیدیوں کے بھوپال کی سینٹرل جیل سے فرار ہونے سے لے کر پولس انکاؤنٹر میں انکی ہلاکت تک تمام واقعات کو مدھیہ پردیش حکومت اور انتظامیہ کی ایک من گھڑت داستان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک کے تمام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایسی صریح کوشش ہے جس پر خود مودی بھکت بھی یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ کی سازشوں سے پوری مسلم کمیونٹی خوف میں مبتلا ہے ۔مولا قاسمی آج یہاں بعض مہلوک قیدیوں کے رشتہ داروں اور شہر کے مسلم نمائندوں کے ایک گروپ سے علاحدہ علاحدہ ملاقاتوں کے بعد اخباری نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملی کونسل مدھیہ پردیش کے صدر وسماجی کارکن جناب عارف مسعود‘ سکریٹری مولانا مسیح عالم، امام مفتی شفیع احمد‘امام مولانا منصور‘جناب مرتضیٰ حسن‘جناب سیف خان‘ ایڈوکیٹ محمد علاء الدین اور آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے سکریٹری مولانا نوشیر احمد سے تفصیلی گفتگو کے بعد یہی تاثر ملتا ہے کہ مدھیہ پردیش حکومت کی اس کھلی مسلم دشمنی سے جہاں پورا ملک سکتہ کے عالم میں ہے وہیں اس شہر اور صوبہ کے مسلمان خود کو بالکل غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ کسی بھی لمحہ انہیں ظلم و ستم اور حکومتی عتاب کا شکار بنایا جا سکتا ہے اور ان کا فرضی انکاؤنٹر کیاجاسکتاہے۔مولانا قاسمی نے ملزمان کے ذریعہ جیل کے مضبوط تالوں کو لکڑی اور چمچوں سے بنی چابی سے کھول لینے‘اسٹیل کی پلیٹ سے ہتھیار بنا کر ایک سپاہی کا قتل کر دینے اور چادروں اور کمبلوں کی سیڑھیاں بناکر جیل کی اونچی دیواروں کو پھلانگ جانے کے حکومت و انتظامیہ کے دعووں کو مضحکہ خیز اور اکیسویں صدی کے عجائبات قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ تین الگ الگ بیرکوں کے یہ آٹھ قیدی آخر کیسے اکٹھا ہو گئے اور بغیر اوزار کے انہوں نے چابیاں اور سیڑھیاں کیسے تیار کرلیں‘ انکے پاس جیل سے باہر نکلتے ہی اچھے کپڑے‘ جوتے اور گھڑیاں کیسے ہاتھ آگئیں؟ انہوں نے کہا کہ ایسے درجنوں سوالات ہیں جنکے جواب انتظامیہ کے پاس نہیں ہیں کیونکہ یہ پورا معاملہ ہی فرضی اور من گھڑت ہے۔مولانا قاسمی نے اس بات پر بھی اعتراض ظاہر کیا کہ حکومت سے لے کراکثر میڈیا تک سبھی سیمی کے زیر سماعت قیدیوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت جب تک کسی ملزم کو قصوروار قرار نہیں دیتی وہ ملزم رہتا ہے۔ ہاں قصوروار ثابت ہونے کے بعد چوری کے ملزم کو چور ‘ زنا کے ملزم کو زانی اور دہشت گردی کے ملزم کو دہشت گرد کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن سیمی کے کارکنوں کو سب نے دہشت گرد ہی کہا اور لکھا ہے جبکہ ابھی یہ بھی ثابت نہیں ہوئی ہے کہ آیا وہ سیمی کے ممبر بھی تھے یا نہیں۔مولانا قاسمی نے افسوس ظاہر کیا کہ مرکز اور بعض ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتوں نے میڈیا کو اس طرح اپنا زرخرید غلام بنا لیا ہے کہ وہ حکومت اور پولس و انتظامیہ کے بیانات کوہی من و عن اپنی رپورٹنگ میں شامل کرکے اپنی ذمہ داری ادا کرلیتے ہیں اور حقائق کی تلاش کے لئے چند ایک میڈیا گھرانے کو لیکر کوئی بھی چھان بین کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے اور اسکے بہت ہی منفی مضمرات سامنے آسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیمی کے کارکنوں کو دہشت گرد کہنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فسطائی طاقتوں نے جو آج حکمراں بن بیٹھی ہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کے بیج بونے کی جومتواتر کوششیں کرتی رہی ہیں۔ ان میں انہیں اب کامیابی ملنے لگی ہے۔ انہوں نے کہاکہ زیر سماعت سیمی قیدیوں کو دہشت گرد صرف اسی لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ وہ مسلمان تھے جبکہ اپنی رپورٹنگ میں میڈیا نے سادھی پراگیہ اور کرنل پروہت جن پر دہشت گردی کے الزامات ہیں کبھی انہیں دہشت گرد تو دور مبینہ دہشت گرد بھی نہیں لکھا۔ تاہم مولانا قاسمی نے یقین ظاہر کیا کہ اگرچہ سچائی آنے میں دیر لگ سکتی ہے لیکن یہ ظاہر ہوکر رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مقامی افراد‘جن میں جناب آنند سنگھ جی‘ جناب بھارگو جی اور جناب عارف مسعود شامل ہیں‘نے عدالت میں عرضی دائر کر دی ہے اوراسکے علاوہ حکومت نے بھی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے انکوائری کرانے کا حکم دیا ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ اس واقعہ کی اصل صداقت ہمارے سامنے ضرور آئے گی۔ انہوں نے عدالتوں سے اپیل کی کہ اپنی نگرانی میں تیزی سے اس معاملے کی جانچ کرائیں تاکہ حقیقت سامنے آسکے اور خاطیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایاجاسکے۔


Share: